واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ سید  امیرکلال

رحمۃ اللہ علیہ

آپ عالی نسب سید سادات میں سے ہیں۔ آپ شہر بخارا سے چھ میل کے فاصلہ پر سوخار نامی قصبہ میں ۶۷۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ کوزہ گری کاشوق رکھتےتھے۔ فارسی زبان میں کوزہ گرکو کلال کہتےہیں لہذاآپ امیر کلال کےنام سےمشہورہوئے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

معاش کا ذریعہ زراعت تھا۔ طاقت ور پہلوان تھے، شوق سے کشتی کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا، کشتی کا کھیل شروع تھا کہ وہاں سے حضرت بابا سماسی قدس سرہ کا گذر ہوا تو آپ وہیں کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ”یہاں موجود ایک شخص سے بندگان خدا کو فیض پہنچے گا، میں اسی لیے کھڑا ہوں“۔اسی اثنا میں حضرت امیر کلال   رحمتہ  اللہ  علیہ  کی نظرحضرت بابا سماسی  رحمتہ  اللہ  علیہ   پر پڑی اسی وقت حضرت بابا سماسی  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےاپنی قوت جاذبہ سے آپ کو اپنی طرف کھینچ لیا چنانچہ یہ سیدزادے اسی وقت سے حضرت بابا سماسی علیہ الرحمۃ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ صحبت و خدمت میں رہ کر آپ کے خلیفہ بلکہ جانشین بنے۔اس کے بعد حضرت امیر کو کسی نے کشتی لڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔

آپ فنافی الشیخ کی سچی تصویرتھے۔ متواترآٹھ سال تک بلاناغہ پیراورجمعتہ المبارک کےروزنمازمغرب سوخارمیں پڑھ کر سماس کو روانہ ہوجاتےجوسوخارسےپندرہ میل کےفاصلےپرواقع ہےاورعشاءکی نمازحضرت باباسماسی کی اقتدامیں ادا کرتےتھے۔ پھرصبح صادق واپس روانہ ہوجاتےاورنمازفجرسوخارمیں آکرپڑھتے۔ آپ کی زندگی میں کسی کوبھی اس حال کی خبرنہ ہوئی۔

ایک دفعہ امیر تیمور نے سمر قند سے ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ اس کی ولایت کو قدم مبارک سے مشرف کریں۔آپ نے اپنے صاحبزادے امیر عمر کو عذر خواہی کے لیے بھیجا  اور کہا کہ اگر امیر تیمور تمہیں کوئی جاگیر یا انعام دے تو مت قبول کرنا۔اگر تم قبول کرو گے تو اپنے جد بزرگوار حضرت محمد ﷺ کے خلاف کرو گے۔

امیر تیمور نے آپ کو تمام بخارا عطا کیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔امیر تیمور نے کہا اگر سارا نہیں تو کچھ حصہ قبول کر لیجیے امیر عمر نے پھر انکار کیا اور کہا کہ اجازت نہیں ہے۔امیر تیمور نے کہا کہ حضرت امیر کلال  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو کیا لکھ بھیجوں کہ ہمارا تقرب درویشوں میں ہو جا ئے۔سید امیر عمر نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا تقرب درویشوں میں ہو جائے تو تقویٰ اور عدل کو اپنا شعار بنا لو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور خاصان حق کے تقرب کا یہی راستہ ہے۔

آپ  کے انتقال کے بعد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ  سے صوفیا کی ایک جماعت  بخارا میں آئی اور قصبہ سوخار کا پوچھا ۔لوگوں کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ حضرت امیر کلال  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔لوگوں نے بتایا کہ وہ  تو رحلت فرما گئے ہیں۔اُنہوں نے آپ کی اولاد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔چنانچہ وہ سوخار آئے اور آپ کی اولاد سے ملے اور حضرت کے کمالات کا ذکر کرنے لگے۔

آپ   رحمتہ  اللہ  علیہ   کی اولاد  اور لوگوں نے ان صوفیا سے کہا کہ حضرت امیر کلال  رحمتہ  اللہ  علیہ   تو کبھی  مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ   گئے ہی نہیں ! آپ ان کو  کیسے جانتے ہیں۔صوفیا بولے  کہ حرمین شریفین میں آپ کے بہت سے مرید جن مین ہم بھی شامل ہیں۔اس سال ہم نے انہیں دیکھا نہیں اس لیے ان کے جمال کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی مگر افسو س کہ آپ وصال فرما گئے ہیں۔

اس کے ان صوفیا نے آپ کے مزار پر حاضری دی اور ارادت مندوں کی طرح آنسو بہائے۔پھر سب خدا حافظ کہہ کر چل دیئے۔

آپ کے باکمال اور صاحب فیض ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سید بہاؤالدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد ہیں۔

آپ بروز بدھ ۲ جمادی الآخر ۷۷۲ ہجری کو اس دار فانی  سے عالم بقا کی طرف روانہ ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار سوخار ہی میں زیارت گاہ اور مرکز رشد و ہدایت ہے۔